لیکھنی ناول -17-Oct-2023
وہ ہی کہانی پھر سے از قلم ہاشمی ہاشمی قسط نمبر9
یہ منظر ہے ایک جنگل کا جہاں ہر طرح اندھیر کا راج تھا وہ چلی رہی تھی لیکن منزال کا کچھ پتا نہیں تھا کہ اچانک کیسی کے رونے کی آواز انے لگئی وہ پریشان سی اگے بڑھی جیسے جیسے وہ اگے جارہی تھی آواز میں اور شدت انے لگئی کوئی بہت زیادہ رو رہا تھا لیکن اندھیر کی وجہ سے وہ انسان نظر نہیں ارہا تھا اب اس کو ڈدر لگنے لگا تھا لیکن ایک تجسس تھا وہ اس نے پوچھا کون ہو تم میرے پاس او میں تکلیف میں ہو آواز ائی جو کہ کسی لڑکی کی تھی نور کو اس کی آواز میں درد محسوس. ہوا تھا لیکن ڈدر لگ رہا تھا اس اندھیر سے وہ اس لڑکی کی شکل دیکھ نہیں سکتی تھی نور اگے ائی آپ کو کیا تکلیف ہے نور نے پوچھا نور میرے پاس او لڑکی نے پھر کہا اور. اس کے رونے میں اور شدت آگئی اس کی بات پر نور کو شاک لگا اور اس کا نام جانتی ہے لیکن وہ ہے کون نور اگے اور بڑھی اور اس کے پاس ائی لیکن وہ لڑکی غائب ہو گئی اس ہی وقت جنگل سے جنگلی جاندرو کی آواز ائی شروع ہو گئی اور نور کی آنکھ کھول گئی روم میں اندھیر تھا یا اللہ یہ خواب تھا کیا نور نے سوچا اور اپنا ھاتھ اگے کر کے سائیڈ ٹیبل سے پانی پینا چاھا لیکن اس ہی وقت گلاس ٹیبل سے گرا گلاس کے گرنے سے وارث کی آنکھ کھولی نور کچھ چاہے آپ کو وارث نے کڑوٹ لیتے ہوے کہا ۔ اور نور چپ تھی نور وارث نے پھر پکارا نور لیکن نور نے کوئی جواب نہیں دیا تو وارث اٹھ کر بیٹھ گیا اور روم کی لائٹ اون کی نور کیا ہوا وارث نے پوچھا لیکن نور خالی خالی آنکھوں سے وارث کو دیکھا رہی تھی وہ اب بھی خواب کے زیر اثر تھی وارث نے دیکھا کے وہ کانپ رہی تھی تو اس نے جلدی سے اس کا ہاتھ تھام لیا نور کیا ہوا ہے آپ مجھے پریشان کر رہی ہے اب وارث نے پوچھا وہ وہ وہ بہت برا خواب تھا مجھے مجھے میرے میرے بابا کے پاس جانا ہے آپ کو پتا ہے جب بھی مجھے برا خواب آتا تھا میں بابا کے پاس سوتی تھی نور نے اٹک اٹک کے کہا وارث نے اس کی بات سن کر جلدی سے اس کو اپنے ساتھ لگیا وہ پوری ترہ کاپب رہی تھی ری یلکس نور وہ بس خواب تھا برا خواب وارث نے کہا اور پھر کچھ وقت بعد نرمی سے خود سے الگ کیا اس کو پانی دیے اب وہ کچھ حد تک نارامل تھی آپ کے بابا نہیں ہے تو میں ہو یہاں آپ سو جاے میرے ساتھ وارث نے کہا اور اپنا تکیہ نور کے تکیہ کے ساتھ کیا وہ دونوں ہی لیٹ گئے نور نے اپنا سر وارث کے سینے پر رکھا تو وارث اس کی حرکت پر مسکرایا اور اس کو اپنے حصارص میں لیا کیونکہ وہ اب بھی ڈدر رہی تھی کچھ وقت بعد وہ سو گئی لیکن وارث جاگ رہا تھا جو اس کی نیند خراب ہوتی تھی تو مشکل سے ہی دوبارا اتی تھی وہ کچھ وقت نور کو دیکھتا رہا اور پھر جھک کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اس کے بارے میں سوچنے لگا
صبح نور کی آنکھ کھولی تو رات جو کچھ ہوا اس کے بارے میں سوچنے لگئی وہ اب بھی وارث کے حصارص میں تھی نور شرمندی ہوئی اور نکلنے کی کوشش کرنی لگئی لیکن وارث کی گرفت مبضوظ تھی آخر نور کو خود پر غصہ ارہا تھا کہ کیا ضرورت تھی اتنا ڈدرنے کی وہ بے بسی سے وارث کو دیکھنے لگئی جو سو رہا تھا وارث جو اس کی جو اس کی آزدا ہونی کی کوشش سے جاگ گیا تھا بس اس کو نتگ کرنے کے لیے سونے کا ناٹک کر رہا تھا لیکن پھر اس پر ترس کھا کر اس کو آزاد کر دیا اور کڑوٹ لے لی
وارث جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا جب اس کی نظر شیشہ سے نور پر گئی جو سر ھاتھ پر گرائے تھی
کیا ہوا ہے نور وارث چلتا ہوا اس کے پاس ایا اور اس کے ماتھے کو چھو کہ کہی بخار تو نہیں ہے
مسٹر آفیسر میری بس ہو گئی ہے اب برداشت نہیں ہوتا یہ سر درد نور نے کہا اس کے سر میں صبح سے درد تھا
ٹھیک ہے ری یلکس وارث نے کہا اور اس کا بی پی چیک کیا تو ہائی تھا تو وہ پریشان ہو اور اس کو دوائی دی
نور یار کیا ٹنشن لے رہی ہے آپ وارث نے سنجیدگئی سے پوچھا اس کی بات پر نور گھبرائی اور جلدی سے بولی کچھ نہیں
نور آپ نہیں بتانا چاھتی تو ٹھیک ہے میں چلتا ہو مجھے ضروری کام سے جانا ہے جلدی انے کی کوشش کرو گا اپنا خیال رکھیے گا وارث نے کہا اور نور کے ماتھے پر پیار کیا اور روم سے جانے لگا
مسٹر آفیسر نور نے اس کو رکا وارث اس کی طرف مڑا اللہ حافظ نور نے کہا
اس کی بات پر وہ مسکرایا اور چلا گیا
وارث نیچے ایا تو سب ناشتہ کی ٹیبل پر موجود تھے وارث نے. سب کو اسلام کیا کیونکہ ناشتہ تو وہ اوپر روم میں نور کے ساتھ کر چوکا تھا چھوٹی ماں بلال کہاں ہے وارث نے پوچھا وہ سو رہا ہے میں گئی تھی اس اٹھنے کے لیے لیکن وہ ہپستال کی وجہ سے اتنے دن سویا نہیں تھا سو میں نے اس کو سونے دیا حریم نے کہا تم جارہے ہو دعا نے پوچھا جی وارث نے ایک الفاظ میں جواب دیا اور ان سے دعاوں لیتا بلال کے روم میں ایا
وہ بلال کے روم میں ایا تو اس کا روم اندھیر میں ڈوبا ہوا تھا اور چلتا ہوا بیڈ کے پاس ایا بلال کو پر سکون سوتے دیکھا کر وہ مسکرایا اس کی مسکراہٹ کچھ عجیب تھی تین،دو ایک، وارث نے کہا اور بلال کے اوپر گرا بلال جو سو رہا تھا اچانک اس کی حرکت پر درد سے کراہ ہاے اللہ میری کمر بلال نے کہا جب کہ وارث ہسنے لگ کمینے انسان تیری تو بلال نے کہا اور وارث کو باوز سے پکرا کر بیڈ پر لیٹا اور اس کے منہ پر مکار مارا
وہ بلال کے روم میں ایا تو اس کا روم اندھیر میں ڈوبا ہوا تھا اور چلتا ہوا بیڈ کے پاس ایا بلال کو پر سکون سوتے دیکھا کر وہ مسکرایا اس کی مسکراہٹ کچھ عجیب تھی تین،دو ایک، وارث نے کہا اور بلال کے اوپر گرا بلال جو مزہ سے سو رہا تھا اچانک اس کی حرکت پر درد سے کراہ ہاے اللہ میری کمر بلال نے کہا جب کہ وارث ہسنے لگا کمینے انسان تیری تو بلال نے کہا اور وارث کو باوز سے پکرا کر بیڈ پر لیٹا اور اس کے منہ پر مکار مارا اب سین یہ تھا کہ بلال شاہ کے اوپر تھا اور دو اور مکارے اس نے مکارے تھے لیکن دیکھتے دیکھتے اب شاہ نے سین بدلہ اب بلال نیچے اور شاہ اس کے اوپر تھا اور بلال کو اس نے اپنی گرفت میں لیا تھا پھر آخر بلال نے ہار مانی اور کہا تو مجھے کیوں تنگ کر رہا ہے شاہ وارث کو اس کی شکل دیکھ کر ہسنی ای اور اس کو آزادی دی یار میں نے کہاں تمہیں نتگ کیا ہے میں تو تمہیں اٹھنے ایا تھا شاہ نے کہا اس کی بات پر بلال نے اس کو گھورا یار تم کو میں سوتا ہو برا لگتا ہوں اور تنگ نہیں کر اور سونے دے بلال نے کہا اور پھر لیٹ گیا بلال یار اٹھ اور نور کے پاس جا اس کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے شاہ نے اب سنیجدہ ہوتے ہوے کہا کیا کیا ہو ڈول کو بلال کرنٹ کھا کر اٹھا وارث نے ساری بات بتائی یعنی تو کہنا چاھ رہا ہے کہ وہ کیسی چیز کی پریشانی لے رہی ہے بلال نے پوچھا تو شاہ نے ہاں میں سر ہلایا ٹھیک ہے میں ابھی اس کے پاس جاتا ہو اور اس سے پوچھتا ہوں بلال نے کہا اور یہ تو کیوں اتنا تیار ہوا ہے صبح صبح بلال نے اب اس ہر غور کیا تھا یار میں کچھ کام سے جارہا ہوں جب تک واپس نہیں آتا تو نور کے پاس ہی رہنا وارث نے کہا ٹھیک ہے شاہ تو نے اپنے مشین کے بارے میں مجھے کچھ نہیں بتایا بلال نے پوچھا یار ٹائم نے ملا آج انشاءاللہ اس بارے میں بات ہو گئی اوکے اللہ حافظ شاہ نے کہا دونوں ہی روم سے نکالے ایک شاہ کی روم کی طرف بڑھ اور دوسرا گھر کے باہر
اسلام و علیکم ڈول بلال نے کہا نور بلال کو دیکھا کر خوش ہوتے ہوے اسلام کا جواب دیا کیسا ہے میرا بچا بلال نے پوچھا میں اب ٹھیک ہو بھائ نور نے کہا اچھا چلو تمہاری پیٹی چینج کر دیتا ہو بلال نے کہا اور نور کے سر کی پیٹی بدلنے لگا جبکہ نور مسلسلہ بلال کو دیکھا رہی تھی نور کی نظریں وہ خود پر محسوس کرتا انجان بنتے ھوے اپنا کام کرتا رہا کچھ وقت بعد وہ فارغ ہوا کیا دیکھ رہا ہے میرا بچے کوئی بات کرنی ہے کیا بلال آخری کار بولا اس کی بات پر نور سپٹپا گئی اور اپنی انگلیاں موڑنے لگئی کیا بات ہے میرا بچے میری ڈول بلال نے اس کے سر پر ھاتھ رکھ کر پھر پوچھا تو نور ضبظ کھو گئی اور بلال کے سینے پر اپنا سر رکھا بلال اس کے لیے تیار نہیں تھا وہ پریشان ہو بھائ نور نے کہا جی بھائ کی جان میرا بچا کیا بات ہے ڈول بلال نے کہا بھائ آپ کو پتا ہے جب میں پریشان ہوتی تھی تو اپنے بابا اور ماں کے سینے پر سر رکھ لیتی اور میں پر سکون ہو جاتی نور نے قرب سے کہا بھائ کی جان آپ کے بھائ ہے نا آپ کے پاس ڈول پھر کیوں پریشان ہوتی ہو بلال نے کہا اس کی بات سن کر بلال کے دل میں کچھ ہوا تھا اچھا میرا بچا پریشان کیوں ہے بلال نے پوچھا اور نور اب بھی اس کے سینے سے لگئی ہوئی تھی بھائ پلیز نور نے کہا یعنی وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی کیا کچھ تھا اس کے پلیز میں درد، تکلیف غم جو کہ بلال نے محسوس کیا اچھا ری ریلکس سب ٹھیک ہو جائے گا بلال نے کہا اور اس کے سر پر بوسہ دیا بھائ آپ دنیا کے سب سے اچھے بھائ ہے نور نے سر اٹھا کر کہا اور اس سے الگ ہوئی بلال مسکرایا اس ہی وقت روم کا درواذ نوک ہو اور بوا اندر ائی بلال بیٹا آپ کے لیے ناشتہ لاو بوا نے کہا ڈول بچے ناشتہ کیا آپ نے بلال نے پوچھا اور نور نے ہاں میں سر ہلایا بوا ایسا کرے میرا ناشتہ یہی لے آئے اور ڈول کے لیے جوس کے ائے ❤❤❤❤❤❤❤ ایک ہفتہ بعد ایک ہفتہ گزار گیا اور نور اب خود چلے پھرنے لگئی تھی بلال اور شاہ نے بہت کوشش کی کے وہ روم سے باہر ائے لیکن وہ نہیں ائی حریم نے حادثہ کے بعد نور کو نہ ہی دیکھ اور نہ ہی اس سے ملنے ائ احمد دو بارے نور سے ملنے ایا اور نور نے اس کی بات کا جواب دینا دور کی بات اس کی طرف دیکھا بھی نہیں وہ مایوس ہی لوٹا شاہ نے ایک بارا کوشش کی کہ نور کو بتائے کہ وہ کیسے ان سب سے جدا ہوئی لیکن نور اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی ماضی میں جو کچھ ہوا نور کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھی بلال آفس سے گھر آیا اور اپنے روم کا درواذ کھولا اور اندر ایا نور اس کے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی ڈول بلال خوش ہوا اس کو دیکھا کر بھائ آپ اتنی دیر سے کیوں ائے ہے نور نے منہ بناتے ہوے کہا تو بلال کی مسکراہٹ اور گہرائی ہوئی بچے کچھ کام تھا اس لیے لیٹ ایا ہو بلال نے کہا بھائ آپ کو پتا ہے میں کب سے آپ کا انتظارا کر رہی تھی نور نے اب شکوہ کیا اووو سوری ڈول کچھ کام تھا آپ کو بلال نے پوچھا بھائ مجھے آپ سے بہت ساری باتے کرنی ہے نور نے کہا کیونکہ بلال دو دن سے مصروف تھا وہ نور کے پاس جا نہیں سکا اچھا ٹھیک ہے میں فریش ہوجاوے پھر باتے کرتے ہے بہت ساری ڈول بلال نے کہا بھائ میرا نام نور ہے نور نے منہ بناتے ہوے کہا بلال مسکرایا ٹھیک ہے نور ویسا آنٹی نے آپ کا نام بہت اچھا رکھا ہے آپ واقع میں نور ہو بلال نے کہا جی میرے ماں بابا دونوں ہی بہت اچھے تھے انہوں نے کیسی کی ناجائز اولاد کو اپنے سینے سے لگا کر رہا نور نے کہا وہ جو اس کی بات سن رہا تھا اس نے لب پیھچ کس نے کہا تم ناجائز ہو تم میری بیٹی ہو احمد شاہ کی احمد جو بلال سے کچھ بات کرنے ایا تھا نور کی بات سن کر غصہ سے بولا اس کی آواز سن کر سب گھر والوں بلال کے روم میں ائے آپ کو پتا ہے وہ جو بچے کچرا کے ڈبہ میں ملتے ہے دنیا والے ایسے ہی ناموں سے ان کو پکارتی ہے اور ان کو ڈدرتی ہے ان کو مارتی ہے اور ان کی غرت خراب کرنے کی کوشسش کرتی ہے تب کہاں تھے آپ جب مجھے مارا گیا تب کہاں تھے آپ جب مجھے دڈریا گیا اور تب کہاں تھے آپ جب میری غرت پر ھاتھ ڈالا گیا تب بھی آپ کہی نہیں تھے آج بھی آپ کہی نہیں ہے اور خبردار جو آئند آپ نے کہا کہ میں آپ کی بیٹی ہو نہیں ہو میں آپ کی بیٹی میں آپنے عبداللہ بابا کی بیٹی ہوں نور نے احمد سے بھی اونچی آواز میں کہا اور روم سے نکل گئی سب پر بم گرا کر ❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣ احمد دل پر ھاتھ رکھ زمیں پر بیٹھ گیا تو بلال کو پہلے ہوش ایا ڈیڈ بلال. اس کے پاس ایا بلال تم نے سننا میری بچی کے ساتھ اتنا سب کچھ ہو گیا اور میں کچھ نہیں کر سکا میں کیسا باپ ہو احمد نے قرب سے کہا ڈیڈ سب ٹھیک ہو جائے گا بلال کے پاس الفاظ ختم تھے لیکن پھر بھی وہ بولا سب نور کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ ایسی کے گرنے کی آواز ائ چھوٹی ماں شاہ حریم کے پاس ایا وہ کے بے ہوش ہو چوکی تھی بلال ڈاکٹر کو فون کرو شاہ نے کہا اور حریم کو بیڈ پر لیٹیا سب اور پریشان ہو گئے